عملِ صالح نجات کی ضمانت
مولانا
عبدالوحید
مُدرس
مرکز تعلیم وتحقیق ۔اسلام آباد
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہےکہ انسان جس چیز سے منسلک ہوتا ہے اس
کے لیے ناگزیر ہے وہ اس چیز سے تعلق کا اظہار کرے اور یہ اظہار اس کے عمل سے اور
اس چیز کے تقاضے پورا کرنے سے سامنے آتا ہے ۔ اسی بنیاد پر قرآن حکیم نے ایمان
اور عمل ِصالح کا رشتہ اجاگر کیا ہے کہ حقیقی ایمان وہی ہے جس کا مظہر عمل ِصالح
کی صورت میں کیا جاے اور یہی ایمان نجات کا ضامن ہے ۔ ایمان اور عمل ِصالح کا تعلق
بیج اور درخت کا سا ہے ،جب تک بیج درخت میں نہ ہو کوئی درخت پیدا نہیں ہوسکتا
،لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور درخت پیدا
نہ ہورہا ہوتو اس کے معنی یہ ہے کہ بیج زمین میں دفن ہوکر رہ گیا ہے ۔ لیکن آج یہ تصور عام ہوگیا ہےکہ ایمان کا
دعویٰ نجات کے لیے کافی ہے ۔ اس لیے
ناگزیر ہے کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کیا جاے اور قرآن مجید کے حقیقی تصور کامیابی
کو اجاگر کیا جاے ۔اس تحریر میں اسی حوالے سے قرآنی آیات واحادیث پیش کی جارہی
ہیں ۔
§
عملِ صالح کا مفہوم
اعمال صالحہ سے
مراد وہ تمام اعمال ہیں جن کا حکم اللہ نے اور جن کی تعلیم نبی ﷺ نے دی ہے ۔چاہے
وہ فرض ہوں یا سنت یا مستحب یا ان کا تعلق حقوق سے ہو یااخلاقیات سے، غرض شعبہ زندگی
سے متعلق ہر کام کو اللہ کی شریعت کے مطابق حسنِ نیت اور اخلاص کے ساتھ محض اللہ
کی رضا کے لیے کیا جاے ۔امام بغوی ؒنے حضرت معاذ ؓ سے روایت نقل کی فرماتے ہیں کہ
:عمل صالح وہ ہے جس میں چار چیزیں ہوں: الْعِلْمُ وَالنِّيَّةُ وَالصَّبْرُ
وَالْإِخْلَاصُ(تفسیر بغوی ج۱ ص ۳۷) علم ، نیت ،صبر ، اخلاص ۔امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
نے عملوا الصالحات پڑھ کر فرمایا :کہ عمل صالح کے معنی یہ ہیں کہ ریاء سے
خالی کرکے خالص لوجہ اللہ کام کرے ۔ (تفسیر مظہری ،قاضی ثناء اللہ پانی پتی ،۱۸۲۹ ،ج۱،ص۱۴)
§
قرآن اورعمل ِصالح
قرآن مجید مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے
تزکیہ وتربیت کا سامان فراہم کرتا ہے ۔غیرمسلم کو اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان
کی طرف بلاتا ہے ۔اور جو شخص ایمان کے دائرے میں آجاتا ہے اسے یہ چیز یاد دلاتا
ہے کہ محض نجات کے لیے ایمان کا دعوی ہی کافی نہیں ہے جب تک تم ایمان کے تقاضے
پورے نہ کرو، اور وہ تقاضا عمل صالح ہی کی صورت میں ممکن ہے ۔اسی بنیاد پر اللہ نے
قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ اس امر کا
اعادہ کیا گیا ہے کہ آخرت میں کامیابی کا
اصول ایمان اور عملِ صالح ہے ۔اسی ضمن میں چند آیات درج ذیل ہیں ۔
۱۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ
هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرۃ ۸۲:۱)
ترجمہ:اور جو لوگ ایمان لاے اور نیک عمل کیے وہی جنت کے
رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے ۔
۲۔وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا
وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا (النساء
۱۰۴:۴)ترجمہ :اور جولوگ ایمان اور عمل کیے اچھے ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی
ہوں گی اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر
کون اپنی بات میں سچا ہوگا۔
۳۔إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
وَأَخْبَتُوا إِلَى رَبِّهِمْ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ(ھود
۲۳:۱۱)ترجمہ :جولوگ ایمان لاے اور اورنیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہوکر رہے تو
یقیناًوہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
درج بالا آیات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جنت کے حصول کا
دارومدار ایمان اور عمل ِصالح
پر ہے ،صرف ایمان کا دعویٰ کسی کام نہیں آے گا جب تک ایمان کے اثرات کا اظہار نہ
ہو ،اور اس کی روشنی عیاں نہ ہو ۔اللہ کے نزدیک وہی ایمان پسند ہے جس کے
تقاضے ایمان لانے کے بعد پورے کیے جائیں ۔
§
عمل صالح اورآپ ﷺ
انسانوں
کو اس کا بھولاہوا سبق یاد دلانے کے حوالے سے اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ انبیاء کو
مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کرائیں اور اسے اصل مقصدِ زندگی کی طرف دعوت دیں ۔اسی سنت کے
تحت رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا گیا آپ ﷺ نے اپنے قول وعمل سے اسلام کی دعوت لوگوں
کے سامنے پیش کی اور ایک ایسی جماعت تیار کی جو ایما ن لانے کے ساتھ ساتھ اس کے
تقاضوں کو عملِ صالح کی صورت میں پورا رکرتے تھے ۔
آپ
ﷺ نے جس امر کی بھی تعلیم دی اس کو اپنے عمل کے ذریعے اس کی حیثیت کو مزید مضبوط
کردیا کہ اسلام کی تعلیمات محض فلسفہ وکہانی پر مبنی نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک حقیقی
پیغام ہے جس کو انسان اپنا کر ہی کامیاب ہوسکتا ہے ۔ آپ ﷺ نے زندگی سےمتلعق تمام امور
میں اپنے عمل کے ذریعے سے اسلامی تعلیمات کا اجاگر کیا ۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کے اخلاق کے
بارے میں پوچھا گیاتو آپ رضی اللہ عنہا نے
فرمایا: كان خلقه القرآن)ادب المفرد ج ۱،ص(115آپﷺ کے اخلاق تو وہی ہے جو قرآن مجید میں موجودہیں .
آپ ﷺ نبوت سے
قبل غار حرامیں اللہ کی عبادت کیا کرتے
تھے اور نبوت کے بعداللہ کی عبادت میں اتنا مشغول رہتے تھے پاؤں میں گھٹے پڑگئے ۔یہ
صورتحال دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
نے آپ ﷺ سے پوچھا :یارسول اللہ آپ اتنی کثرت سے اللہ کی عبادت کیوں کرتے ہیں
حالانکہ آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دیے گئے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا : أفلا أحب أن أكون عبداً شكوراً(متفق علیہ )
کیا میں اس بات کو پسند نہ کروں کہ میں اللہ کا شکرگزار بندہ بن جاؤں۔آپ
ﷺ کے اس عمل میں امت کو تعلیم دینا بھی مقصود تھی کہ عمل صالح ہی کے ذریعے سے
انسان اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہی بندہ مومن دنیا وآخرت
میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔
§
بنی اسرائیل کا دعوی
بنی اسرائیل کو اللہ رب العالمین نےدنیا میں ہر نعمت سے
نوازا لیکن ان کی ہٹ دھرمی اور سرکشی نے ابدی ذلت ورسوائی ا ن کے مقدرہوگئی۔ان کا
ایک دعویٰ یہ تھا کہ آخرت میں کامیابی کے
حقدار ہم ہی ہیں اور جنت تو ہی ہمارے لیے ،اور اگر آگ کا عذاب ہمیں ملا بھی تو اس کی میعاد کچھ دن ہوگی ۔ان کی اس
بات کو اللہ نے قرآن مجید میں بیان کرتے ہوے ارشاد فرمایا: وَقَالُوا لَنْ
تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ
اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ
مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرۃ 80:1)
ترجمہ:وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز
چھونے والی نہیں الا یہ کہ چندروزکی سزا مل جاے تو مل جاے ۔ان سے پوچھوکیا تم نے
اللہ سے کوئی عہد لیا ہے ،جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟یا بات یہ ہے کہ تم
اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہوجن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے
ان کا ذمہ لیا ہے ؟ اللہ رب
العالمین نے اس گمان باطل کی نفی فرماتے ہوے ارشاد فرمایا: بَلَى مَنْ
كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ
هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرۃ 81,82:1)ترجمہ:آخر دوزخ کی
آگ کیوں نہ چھوئے گی ؟جوبھی بدی کماے گا اور اپنی خطاکاری کے چکر میں پڑا رہے
گا،وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔اور جولوگ ایمان لاے اور نیک عمل
کیے یہی جنت والے ہیں اور میں وہ ہمیشہ رہے گے ۔
اس آیت میں اللہ نے ان کے باطل عقیدے کو
ردکردیا اور ان کے سامنے یہ امر واضح کردیا کہ برائی کا کسب کرنے والا اپنا انجام
برا ہی پاے گا اور جو شخص نیکی کا راستہ اختیار کرے اس کو جنت میں داخل کیا جاے گا
۔
v
اعمال صالحہ کے انفرادی زندگی پر اثرات
جب ایک شخص ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ کی
صورت میں ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہے تو اس کی انفرادی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے
اوراس کو اس کے نتیجے میں درج ذیل فوائد
حاصل ہوتے ہیں۔
o مشکل سے نجات
اللہ کا قانون ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے (چاہے اس کا
تعلق خیر سے ہو یا شر سے )اس کے نتائج دنیا میں
بھی اسے حاصل ہوتے ہیں اور آخرت
میں بھی اس کا بدلہ دیا جاے گا ۔اسی ضمن
میں آپ ﷺ نے اپنے عہد سے پہلے کے تین اشخاص کا تذکرہ کیا جو غار میں پھنس گئے تھے
،اس مشکل میں انہوں نے اللہ رب العالمین کو اپنے ان نیک اعمال کا واسطہ دیا کہ جو
صرف انہوں اسی رضا کے لیے کیے تھے تو اللہ نے ان کو اس مشکل سے نجات دی۔اس حدیث
کےراوی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں فرماتے ہیں: کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوے سنا :کہ تم سے پہلی
امتوں میں سے تین شخص ایک سفر پر نکلے حتیٰ کہ (رات ہوگئی چنانچہ )رات گزارنے
کےلیے وہ ایک غار میں داخل ہوگئے ۔تھوڑی ہی دیر کے بعدپہاڑ سے ایک بڑا ساپتھر لڑھک
کرنیچے آیا جس نے غار کے دھانے کو بند کردیا ۔یہ دیکھ کر انہوں نے آپس میں کہا :کہ اس ابتلاء سے نجات کی یہی صورت ہے کہ
تم اپنے اعمال صالحہ کےواسطے سے اللہ سے دعا کرو (چناچہ انہوں نے اپنے عمل کے
حوالے سے دعائیں کیں )۔ان میں سے ایک آدمی نے کہا :یااللہ :تو جانتا ہے میرے
بوڑھے ماں باپ تھے اور شام کو میں سب سے پہلے میں انہی کو دودھ پلاتا تھا ،ان سے
پہلے میں اہل وعیال کو اور خادم وغلام کو نہیں پلاتا تھا ۔ایک دن درختوں کی تلاش
میں دورنکل گیا اور جب واپس آیا تو والدین سوچکے تھے ،میں نے شام کا دودھ دوہااور
ان کی خدمت میں لیکر حاضر ہواتو دیکھا کہ وہ سوے ہوے ہیں ،میں نے ان کو جگانا پسند
نہ کیا اور ان سے پہلے اپنے اہل اور غلاموں کو دودھ پلانا گوارا نہ کیا۔میں دودھ
کا پیالہ ہاتھ میں پکڑے ان کےسرہانے کھڑا رہااوران کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا،جب
کے بچے بھوک کے مارے میرے قدموں میں بِلبلاتے رہے ،حتیٰ کہ صبح ہوگئی اور وہ بیدار
ہوگئے میں نے انہیں ان کے شام کے حصے کا
دودھ پلایا اور انہوں نےپیا ۔یااللہ :اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضاکے لیے کیا تھا ،تو ہم اس چٹان کی
وجہ سے جس مصیبت میں پھنس گئے ہیں اس سے ہمیں نجات عطا فرما۔پس (اس دعا کے نتیجے میں) وہ چٹان تھوڑی سی سرک گئی ،لیکن ابھی اس
سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے ۔
دوسرے شخص نے دعا کی یااللہ :میری چچا زاد بہن تھی جو مجھے
بہت زیادہ محبوب تھی (دوسری روایت میں ہے
کہ میں اس سے اتنی شدید محبت کرتا تھا جتنی کے زیادہ سے زیادہ محبت مردوں کو
عورتوں سے ہوسکتی ہے)پس میں نے ( ایک مرتبہ )اس سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کا
ارادہ کیا لیکن وہ آمادہ نہیں ہوئی اور اس نے انکار کردیا ۔حتیٰ کہ ایک وقت آیا
کہ قحط سالی نے اسے میرے پاس آنے پر مجبور کردیا ،میں نے اسے اس شرط پر ایک سوبیس
دینار دیئے کہ وہ میرے ساتھ خلوت اختیار کرے چناچہ وہ آمادہ ہوگئی ۔جب میں اس سے
اپنی خواہش پوری کرنے پر قادر ہوگیااوراس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا ‘تو
اس نے کہا :اللہ سے ڈر!اس مُہر (پردے )کو ناحق مت توڑ(اس کے ان الفاظ نے یا اللہ :تیرا
خوف مجھ پر طاری کردیا ) اور میں اس سے دور ہوگیا حالانکہ وہ تمام لوگوں میں مجھے
سب سے زیادہ پیاری تھی ،اور میں نے سونے کے وہ دینار بھی چھوڑدیئے جو میں نے اسے دئیے تھے ۔یا اللہ : اگر یہ کام میں نے
تیری رضا کے لیے کیا تھا تو یہ نازل شدہ مصیبت ہم سے دور فرما!چناچہ وہ چٹان کچھ
اور سرک گئی ‘لیکن وہ اب بھی اس غار سے نہیں نکل سکتے تھے ۔
تیسرے نے دعا کی یا اللہ : میں نے کچھ مزدورں کو اجرت پر
رکھا تھا ،سب کو میں نے ان کی اجرت دی صرف ایک مزدور اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا
۔میں نے اس کی مزدوری کی رقم کاروبار میں لگادی حتیٰ کہ اس سے بہت سا مال بن گیا
۔کچھ عرصے بعد اس نے میرے پاس آکر کہا:اللہ کے بندے مجھے میری اجرت اداکردے ۔میں
نے کہا :یہ اونٹ ،گاے ،بکریاں اور غلام جو تجھے نظر آرہے ہیں یہ سب تیری اجرت ہے
۔اس نے کہا :اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر ۔میں نے کہا :میں تجھ سے مذاق نہیں
کررہا ۔چناچہ (میری وضاحت) پر وہ سارا مال لے گیا ‘اس میں سے اس نے کچھ نہ چھوڑا
۔یا اللہ :اگر میں نے یہ کام صرف تیری رضا
کی خاطر کیا ہے تو یہ مصیبت ‘جس میں ہم (مبتلا) ہیں ہم سے دورکردے ،پس وہ ساری چٹان ہٹ گئی اور غار کا منہ کھل
گیا اور سب باہر نکل آے ۔)صحیح
مسلم ،کتاب الرقاق ، بَابُ قِصَّةِ أَصْحَابِ الْغَارِ الثَّلَاثَةِ
وَالتَّوَسُّلِ بِصَالِحِ الْأَعْمَالِح۲۷۷۳(
مذکورہ حدیث میں
بندہ مومن کے لیے اہم نصیحتیں موجود ہیں ۔سب سے اہم بات یہ کہ ہر نیک عمل میں
خالصتاً اللہ کی رضا پیش نظر ہو تو اس کے
نتیجے میں بندہ اپنے اس نیک عمل کو وسیلہ بنا کر مشکلات ومصائب سے نکل سکتا ہے ۔مذکورہ
حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ جو بھی نیک کام کرتا ہے اس کے ثمرات اسے دنیا ہی میں نظر
آنے لگتے ہیں ،اور وہ اس کے نتیجے میں بہت سی آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔
§
مرجع خلائق
جو شخص ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کرتا ہے اللہ رب العالمین اسے
لوگوں کا محبوب بنادیتے ہیں لوگوں کے دلوں میں اس کا مقام ومرتبہ قائم ہوجا ہے ۔اس
امر کی طرف اشارہ کرتے ہوے اللہ نے فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ
وُدًّا(مریم 96:19)یقیناً جولوگ
ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں عن قریب رحمان ان کے لیے دلوں میں محبت
پیدا کردے گا۔یہ حقیقت بھی ہےکہ جن لوگوں نے اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی
اطاعت میں بسر کرتے ہیں لوگ ان کا دل سے
احترام کرتے ہیں ،ان سےمحبت کرتے ہیں ،ان کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں اور ان کو
اپنے معاملات میں رہنما تسلیم کرتے ہیں ۔
§
رزق کریم اور گناہوں کی مغفرت
اعمال صالحہ کے نتیجے میں انسان
کو ہر قسم کے رزق سے نوازا جاتا ہےاور اس کے نامہ اعمال نیکیوں سے پر کیے جاتے ہیں
۔ارشاد باری تعالی ہے :وَالَّذِينَ آمَنُوا
وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ(فاطر7:35)ترجمہ:اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے
مغفرت اور بڑا اجر ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ
سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ)العنکبوت 7:29)ترجمہ: :اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گےان کی برائیاں
ہم ان سے دور کردیں گے اور انھیں ان کے بہترین اعمال کی جزاء دیں گے ۔
v
اعمال صالحہ کے اجتماعی زندگی پر اثرات
جب اجتماعی سطح پر
اللہ اور اس کی اطاعت کا بول بالا ہوتا ہے ،اورجب ہر شخص صبغۃ اللہ کی تصویر نظر
آتا ہے تو اللہ رب العالمین کی طرف سے پوری اجتماعیت درج ذیل انعامات سے مستفید
ہوتی ہے ۔
o
خلافت علی الارض
قرآن مجید میں اللہ نے اس امر کی وضاحت کی ہے نیک وصالح افراد کے ہاتھوں میں جب بھی زمین کا
اقتدار آیا انہوں نے اللہ ہی کو
مقتدرِاعلیٰ تسلیم کیا اور اس کی ہدایات کے مطابق نظامِ حکومت قائم کی۔اس ضمن میں حضرت داؤد علیہ السلام اور
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت موسی علیہ
السلام اور ان کی قوم کی حکومت کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔اس کے برعکس خدا کے باغیوں
ونافرمانوں کے ہاتھ میں جب بھی زمین کا
اقتدار آیا ،انہوں نے تکبر کیا ،اپنی خواہشات کے مطابق نظام حکومت قائم کیا ،لوگوں کوں اپنی غلامی پر مجبور کیا، اس ضمن
فرعون و قارون وغیرہ کا قرآن حکیم میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔اللہ نے‘‘ خلافت علی الارض ’’کا وعدہ ایمان اور عمل ِصالح کے
ساتھ مشروط فرمایا ہے اسی امرکی طرف اشارہ کرتے ہوے اللہ رب العالمین نے فرمایا:وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ
وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ
مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ
مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ
كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(نور ۵۵:۲۴)ترجمہ :اللہ نے
وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ
ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بناے گا جس
طرح اُن سے پہلے گزرے ہوے لوگوں کو بنا چکا ہے ،اُن کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط
بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے ،اور ان کی(
موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا ،بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی
کو شریک نہ کریں ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوے پیر کرم شاہ ازہری ؒبیان
کرتے ہیں :‘‘تاریخ کی ناقبلِ تردید شہادت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے اور اس کے رسول ﷺ نے جو وعدہ فرمایاتھا ،وہ پورا ہواعہدِ رسالت میں ہی مکہ
مکرمہ ،حجاز،خیبر ،بحرین یمن اور جزیرہ عرب کے سارے علاقے اسلامی قلمرو میں شامل ہوگئے ۔ ۔عہدِصدیقیؓ میں اسلام کی عالمی
فتوحات کا آغاز ہوا ،مشرق میں حضرت خالدؓ
اورمغرب میں حضرت ابوعبیدہؓ کی قیادت میں افواجِ اسلامیہ نے فتح ونصرت کے جھنڈے
گاڑنے شروع کردئیے ۔عہدِفاروقیؓ میں فتوحات کادائرہ وسیع ہوتاچلاگیا کہ جس نے
کسریٰ کی چارہزار سالہ شان وشوکت خاک میں ملادی ، جہاں ملک کے گوشہ گوشہ میں آتش
کدے روشن تھے ،اور آگ کی پوجاہورہی تھے وہاں أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا
عبده ورسوله کی دلنواز صدائیں بلند ہونے لگیں ۔عہدِ
عثمانیؓ میں شمالی افریقہ کے ممالک فتح ہوے ،مشرق میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ چین
کی سرحدوں تک پھیل گیا ،سندھ کے ریگزاروں میں بھی نورِ اسلام سے اجالا ہونے لگا
،ہر علاقے میں امن وسکون قائم ہونے لگا’’۔(ضیاء القرآن ،ج سوم ،ص۳۷۲)
پوری کائنات اللہ کی ملکیت ہے اس پر اقتدار کے حقدار بھی
اسی کے بندے ہیں جو اس پر لاتے ہیں اور اس کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے
ہیں ۔
اللہ
رب العالمین کا یہ وعدہ آپ ﷺ کے عہد میں اور آپ ﷺ کے خلفاء کے ادوار میں ہی پورا ہوچکا ہے،پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا
ہوا،آپﷺ کی تعلیمات وہدایات کی رورشنی میں نظام ِزندگی مرتب ہوا ۔آج بھی امت ایمان باللہ وبالرسول کے
حقیقی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کردے تو اللہ رب العالمین امت مسلمہ کو
قیادت وسیادت کا منصب عطا فرمائیں گے ۔
§
امن وسلامتی
امن وسلامتی ایک ایسی نعمت ہے جس کا ہر شخص طلبگار ہے
اور یہ معاشرتی زندگی کی نشوونما کے لیے ناگزیر بھی ہے ۔جس معاشرے میں باعمل اہل
ایمان زندگی بسر کررہے ہوں اس معاشرے میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور وہ
معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ
وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ
مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ
مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ
كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(نور ۵۵:۲۴)ترجمہ:اللہ نے
وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ
ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بناے گا جس
طرح اُن سے پہلے گزرے ہوے لوگوں کو بنا چکا ہے ،اُن کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط
بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے ،اور ان کی(
موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا ،بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی
کو شریک نہ کریں ۔
مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوے
رقمطرازہیں:یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے ،بلاواسطہ اس کے
مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی ﷺ کے عہد میں موجود تھے ۔وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت
مسلمانوں پر حالتِ خوف طاری تھی اور دین ِاسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی
مضبوط جڑنہیں پکڑی تھی ۔اس کے چند سال بعد یہ حالت ِخوف نہ صرف امن سے بدل گئی
بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقا کے بڑے حصے پر چھاگیا اور اس کی جڑیں
اپنی پیدایش کی زمین ہی میں نہیں ،کُرہ زمین میں جم گئیں ۔(تفہیم
القرآن ،جلدسوم،صفحہ 419)
§
بداعمالی کا انجام
اللہ رب العالمین نے اہل ایمان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت تسلیم کرنے کے بعد اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے رب کی ہدایات کے مطابق
اپنی زندگی بسرکرے، ہر اس راستے سے
روگردانی کرے جس کے نتیجے میں اللہ کا غضب اور عذاب اترتا ہے ۔قرآن حکیم میں اس
ضمن میں سابقہ اقوام کی مثالیں پیش کی گئی
ہیں ،کہ انہیں اللہ نے دنیا کی ہر نعمت سے مالامال کیا ،کائنات کی ہرچیز ان کے لیے
مسخر کردی ،لیکن جب انہوں نے اللہ کی اطاعت سےمنہ موڑا ،اپنے نفس کی من مانیوں میں
مگن ہوگئے تو اللہ نے دنیا میں بھی انہیں عذاب سے دوچار کیا اور آخرت میں ان کے
لیے درد ناک عذاب ہے ۔
سب سے بڑی مثال بنی اسرائیل کی ہے ،اللہ نے انہیں دنیا
کی امامت کا منصب عطا کیا ،انہیں اقتدار سے بھی نوازا ،لیکن انہوں نے اپنے نفس کی
،اور شیطان کی بات کو ترجیح دی ،کتاب اللہ میں تحریف کی بداعمالیوں کا ارتکاب کیا ،ان کے پاس اللہ نے پے
در پے انبیا ء مبعوث کیے تاکہ وہ راہ ِراست پر آجائیں لیکن وہ بداعمالیوں کے نتیجے میں اتنے جری ہوگئے تھے کہ انبیاء کو بھی خاطر میں نہ لاے اور انہیں
قتل کردیا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نَصْبِرَ
عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ
مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ
الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا
سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ
اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ
بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (البقرۃ
۶۱:۲)ترجمہ :یاد کرو جب تم نے کہا تھا ‘‘اے موسیٰ ’’ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں
کرسکتے ،اپنے رب سے دعا کروہمارے لیے زمین کی پیداور ساگ،ترکاری،کھیرا،ککڑی گیہوں
،لہسن ،پیاز ،دال وغیرہ پیدا کرے ۔تو موسیٰؑ نے کہا:کیا تم ایک بہتر چیز کے بجاے
ادنیٰ درجے کی چیز لینا چاہتے ہو؟’’اچھا
کسی شہری آبادی میں جارہو ،جو کچھ تم مانگتے وہ مل جاے گا۔آخر نوبت یہاں تک
پہنچی کہ ذلت وخواری ،پستی وبدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر
گئے ۔یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیا ت سے کفر کرنے لگے ۔اور پیغمبروں کو
ناحق قتل کرے لگے ،اور یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ حدودِشرع
سے نکل جاتے تھے ۔
بنی اسرائیل کی
بداعمالی کے نتیجے میں جو دائمی
اور عبرتناک سزا دی گئی قرآن مجید میں
اس طرح بیان کی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ
مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ
مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ
بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا
وَكَانُوا يَعْتَدُونَ(آلِ عمران ۱۱۲:۳)ترجمہ
:یہ جہاں بھی پاے گئے ان پر ذلت کی مار ہی
پڑی ‘کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے ،یہ
اللہ کے غضب میں گھرِ چکے ہیں ،ان پر محتاجی ومغلوبی ،مسلط کردی گئی ہے ،اور یہ سب
کچھ اس وجہ سےہوا کہ یہ اللہ کی آیات سے کفرکرتے رہے ،اور انہوں نے پیغمبروں کو
ناحق قتل کیا ،یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے ۔
ان دو آیات میں اللہ رب العالمین اس امر کی وضاحت کی
ہے کہ بنی اسرائیل زوال ان کی بداعمالیوں
کی وجہ سےرونما ہوا ۔جس کے نتیجے میں اللہ نے ان پرذلت ورسوائی مسلط کردی ۔اسی طرح قرآن حکیم میں دیگر سابقہ اقوام کا
بھی ذکر کیا گیا ہے مثلاً:قوم نوح،قوم عاد،قوم ثمود ،قوم لوط،قوم صالح وغیر ہ ان
پر عذاب نازل ہونے کی یہی وجہ بتائی ہے کہ
انہوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا ،اور ظلم یہ ہے اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیرا ،اور شیطان اور اس کے حواریوں کے راستے
کے مطابق اپنی زندگی بسر کی یہ وہ عظیم ظلم ہے جس کے نتیجے اللہ کا غضب نازل ہوتا
۔قرآن مجید میں ان اقوام کا ذکر اس لیے کیا تاکہ امت ِمسلمہ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے بعید رکھے
اور ان کی اطاعت کو اوڑھنا بچھونا بنالے ۔
§
لمحۂ فکریہ
اللہ نے امت
محمدیہ کو امت وسط بنایا ہےاور اس امت کو ان تمام انعامات سے سرفراز کیا جن سے
سابقہ اقوام محروم رہی ہیں ۔اللہ نےاس امت کو امامت وقیادت کی باگ دوڑ عطافرمائی ،لیکن
اتنے انعامات کے باوجود اس امت نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کیا رویہ اختیار
کیا؟اللہ کی نافرمانی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،دین کے احکامات کو پامال کیا ،اپنی
ذاتی خواہش کے مطابق دین کے کچھ احکامات کو لیا اورکچھ کو ترک کردیا ،خیانت
،بداخلاقی سے اپنا رشتہ استوار کرلیا ۔آج کا مسلم یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ ایمان کا
دعویٰ ہی نجات کے لیے کافی ہے اور آپ ﷺ کی امتی ہونے کی حیثیت سے جنت ہمارے مقدر
ہے اگرچہ کتنے ہی گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہو۔یہ محض ایک گمان ہے جس کا حقیقت سے
کوئی تعلق نہیں ہے ۔
§
بحیثیت مسلم ہماری ذمہ داری
مجموعی طور پر امت مسلمہ
کثیر تعداد کے باوجود ذلت ورسوائی کا شکار ہے ۔اس کی اصل وجہ اللہ اور رسول
اللہ ﷺ کابتایا ہوا طریقہ زندگی ہم نے ترک کردیا ہے ۔حقیقت یہ کہ قرآن وسنت رسول
ﷺ میں ایسی کوئی بات نہیں بتائی گئی ،اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان
اللہ اجمعین اپنے آپ کو عبادات نہ تھکاتے
اور اسی پر اکتفا کرلیتے ۔جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اپنے نفس کا دھوکہ
دے رہے ہیں ۔
بحیثیت مسلم انفرادی واجتماعی سطح پر ہماری یہ ذمہ داری
بنتی ہے کہ ہم ان تما م نیک اعمال کا اہتمام کریں جن کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ
نے دیا ہے ،اور ان تما م امور سے اجتناب کریں جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع
فرمایا ہے ۔اسی کے نتیجے میں ہم دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ
نے فرمایا :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی مسلمان بننے کی
توفیق عطافرے اور ایمان کے حقیقی تقاضوں کو سمجھنے کی اور اس کے مطابق اپنی زندگی
گزارنے کی توفیق عطافرماے ۔آمین